(ایجنسیز)
شامی صدر بشارالاسد کی حکومت اپنے عوام کو بھوک کا شکار کررہی ہے اور جنگی حربے کے طور پر ان تک انسانی امداد کی رسائی کو روک رہی ہے۔اس کو جنگی جرم یا انسانیت کے خلاف جرم خیال کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل سلیل شیٹی نے ڈیووس میں العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔انھوں نے کہا کہ جنیوا میں جاری مذاکرات کے دوران عالمی برادری شامی بحران کے سیاسی حل کے حوالے سے تو اختلافات کا شکار نظرآتی ہے لیکن وہ بے گھر افراد تک بلاروک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی پر ضرور اتفاق کرسکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں نوے لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ان افراد تک انسانی امداد کی رسائی تو ہونی چاہیے لیکن ایک بدقسمت حقیقت یہ ہے کہ شامی حکومت منظم انداز میں بھوک اور انسانی امداد کی فراہمی سے انکار کو ایک جنگی حربے کے طور استعمال کررہی ہے۔یہ ایک جنگی جرم ہے اور آپ نے گذشتہ کل اس حکومت کے انسانیت مخالف جرائم کی رپورٹس بھی ملاحظہ کی ہوں گی۔
وہ شامی صدر بشارالاسد کی حکومت اور ان کی وفادار فوج کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے سے متعلق رپورٹ کا حوالہ دے رہے تھے جس میں ان پر زیر حراست شامیوں کی ''صنعتی پیمانے پر ہلاکتوں'' اور بہیمانہ تشدد کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
31 صفحات کو محیط یہ رپورٹ جنگی جرائم کے تین سابق بین الاقوامی پراسیکیوٹرز نے تیار کی ہے اوریہ ایک منحرف شامی فوجی اور حزب اختلاف کے ایک حامی کے بیانات پر مبنی ہے۔اس رپورٹ میں شامیوں پر وحشیانہ تشدد کے تصاویری شواہد فراہم کیے گئے ہیں۔دوران حراست ہلاک کیے گئے گیارہ ہزار افراد کی قریباً پچپن ہزار ڈیجٹل تصاویر فراہم کی گئی ہیں۔اس سابق اہلکار نے
دعویٰ کیا ہے کہ یہ تمام افراد دوران حراست ہی مارے گئے تھے اور اس کے بعد انھیں ایک فوجی اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کی تصاویر بنائی گئی تھیں۔
سلیل شیٹی نے کہا کہ ''تحقیقاتی کمیشن کو شام میں رسائی نہیں دی جارہی،ایمنسٹی انٹرنیشنل کو رسائی حاصل نہیں ہے۔اگر انسانی حقوق کی آزادانہ مانیٹرنگ کی جائے تو ہم آزادانہ جائزے کو یقینی بنا سکتے ہیں،اس سے انسانی صورت حال بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے''۔
شام میں جاری بحران پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی سات بڑی تنظیموں نے بدھ کو ڈیووس میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔اس میں عالمی برادری پر زوردیا گیا ہے کہ وہ ہمارے وقت کے بدترین انسانی بحران سے دوچار شامی عوام کی مدد کے لیے اٹھ کھڑی ہو۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ''اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک اگر شامی بحران کے خاتمے کے لیے عزم کا اظہار نہیں کرتے تو ان کی حیثیت داؤ پر لگی ہوئی ہے''۔بیان کے مطابق شام میں ہمیں اس وقت ایک سخت امتحان درپیش ہے لیکن ہم اس میں ناکام ہوتے جارہے ہیں۔
مہاجرین کا مسئلہ
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یورپی حکومتیں شامی عوام کے ساتھ کوئی اظہار یک جہتی نہیں کررہی ہیں اور وہ انھیں قبول کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تئیس لاکھ شامی مہاجرین میں سے ستانوے فی صد پانچ پڑوسی ممالک میں رہ رہے ہیں۔ان ممالک میں سے لبنان فلسطینی اور شامی مہاجرین کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ''یورپی لیڈروں نے اس وقت اپنی تمام تر دولت اور وسیع وعریض سرزمین کے ساتھ صرف چودہ ہزار مہاجرین کو سنبھالا ہوا ہے۔ان میں سے گیارہ ہزار صرف جرمنی میں ہیں۔اگر آپ لیکچر دینے کے لیے جائیں اور کم سے کم کام بھی نہ کریں تو یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے''۔